خیبرپختونخواحکومت کی جانب سےگھریلو تشدداورتولیدی صحت کےحقوق سےمتعلقہ قوانین کےنفاذکی جانب اہم پیش رفت

آج خیبر پختونخوا اسمبلی کے وومن پارلیمینٹری کاکس کے تعاون سے، تنظیم بلیو وینز اور آوازسی ڈی ایس کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں، اراکین اسمبلی, حکومتی اداروں, سماجی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اداروں نے شرکت کی.

خیبر پختونخوا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر محمود جان پروگرام کے مہمان خصوصی تھے، جنہوں نے اس موقع پر کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے خواتین اور بچوں کے حوالے سے مثالی قوانین بنائے ہیں اور ان کے نفاذ کے لیے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں, صوبائی اسمبلی کے تمام ممبران اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال کو بہتر بنایا جائے.

حکومتی اراکین کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے ممبران اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو بتایا گیا کہ تولیدی صحت کے حقوق سے متعلق قانون کے رولز آف بزنس تیار کر کے کابینہ کو بھجوائے جا چکے ہیں جن کی منظوری کے بعد انہیں نافذ کردیا جائے گا. اسی طرح گھریلو تشدد سے بچاؤ کے قانون کے رولز آف بزنس تیاری کے مراحل میں ہیں اور ڈسٹرکٹ پراٹکشن کمیٹیوں کے قیام کے لئے مشاورت کا عمل جاری ہے. خواتین کمیشن برائے وقار نسواں کی ضلعی کمیٹیوں کے لیے ممبران کی تعیناتی بھی جلد متوقع ہے اور اس حوالے سے کمیٹی ممبران کے نام محکمہ سماجی بہبود کو ارسال کردیئے گئے ہیں.

صوبائی وو من پارلیمینٹری کاکس کی نائب صدر مدیحہ نثار صاحبہ نے کہا کہ کا کس میں شامل خواتین عورتوں اور بچوں کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کے حوالے سے پرعزم ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگان اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں.

ممبر صوبائی اسمبلی عائشہ بانو نے کہا کہ حکومت خیبر پختونخوا گھریلو تشدد سے بچاؤ اور تولیدی صحت کے حقوق کا قانون منظور کر کے اہم سنگ میل عبور کیا ہے, اب یہ متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے کہ ان قوانین کو نافذ العمل کیا جائے تاکہ قانون کی عمل داری قائم کی جا سکے.

جماعت اسلامی کی ممبر صوبائی اسمبلی اور وومن پارلیمینٹری کاکس کی جوائنٹ سیکرٹری حمیرا خاتون نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ مذہبی سیاسی جماعتیں انسانی حقوق سے متعلقہ قوانین کی راہ میں رکاوٹ ہے. انہوں نے کہا کہ تمام قوانین کو اسلام کے متعین کردہ اصولوں کے تحت ہونا چاہئے.

آواز سی ڈی ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ضیاء الرحمان نے اس موقع پر کہا کہ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین کی ایک بڑی تعداد کو انصاف تک رسائی حاصل نہیں اور بہت ساری خواتین ہراسانی سے متعلق شکایات درج نہیں کرا پاتی. انہوں نے مطالبہ کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت جلد بچپن کی شادی سے سے متعلقہ روک تھام قانون منظور منظور کرے.

بلیو وینز کے کوآرڈینیٹر قمر نسیم نے حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بتدریج دُور کیا جائے, تاکہ انصاف پر مبنی معاشرہ فروغ پا سکے.

اپنا تبصرہ بھیجیں