افغانستان پر تجزیہ کاروں کی خدمت میں چند گزارشات۔۔۔ تحریر: ناصر داوڑ

افغان مسئلے پر آج کل صحافیوں کی لاٹری نکل آئی ہے اور موسمی بٹیر ے بھی تجزیہ کار بنے ٹی وی چینلوں پر بھاری بھرکم الفاظ میں خطے کی سٹرٹیجک حالات پر رائے دے رہے ہیں ،اچھی بات ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا میڈیا بحرانوں میں گھری افغان قوم کیلئے سکھ کا کوئی سامان اپنی اس تجویز سے سامنے لے آئیں جو وہ ٹی وی پر آکر دینا چاہتے ہیں،کوئی پاکستان کا افغانستان سے فطری رشتہ نکال رہا ہے تو کسی کو طالبان قیادت پر تحفظات ہیں ۔ افغان صحافیوں کی جانب سے بھی ایسی ہی دوڑ لگی نظر آتی ہے جو سقوط کابل کو افغانستان کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے پورے خطے اور عالمی منظرنامے کی کوئی گریٹ گیم کا حصہ ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں،افغان بھائیوں کو عرض ہے کہ سب سے پہلے آپ کو اپنی علاقائی حدود میں واقع شورشوں پر زمینی حالات پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ،اسی طرح پاکستانی صحافی ایئر کنڈیشنڈ سٹوڈیوز کے وار۔روم میں بیٹھ کر زمین وآسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھک رہے ،پاکستان اور افغانستان میں جن بڑی بڑی باتوں میں واضح تمیز ہے وہ یہ کہ طالبان افغان قوم سے تعلق رکھتے ہیں ،ان میں پشتون بھی ہیں ،ہزارہ بھی ،تاجک بھی اور دری وال افغان بھی ۔۔۔طالبان آپ کا حصہ ہیں اس حقیقت کو جب تک کوئی تسلیم نہیں کرتا تب تک اس خطے میں قیام امن کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہوسکتی،دوسری طرف پاکستان میں اسلامی نظام کا خواب دیکھنے والے مذہبی گروہوں کے بیانات سے لگتا ہے کہ ستمبر تک طالبان پشاوراور پھر اسلام آباد بھی پہنچ جائیں گے ،جن زمینی حقئاق کا فرق رکھ ہم یہ بات کرسکتے ہیں اس میں افغان طالبان اور پاکستان میں اس طرح کا کوئی ایڈونچر کرنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے،افغان طالبان اپنی سرزمین کو اغیار سے آزاد کرانے کیلئے سربہ کفن ہوئے اور تاریخ شاہد ہے کہ سقوط کابل میں وہ صرف اس خلاء کو پرکرنے نکلے تھے جن میں افغان قیادت بیرونی انویسٹمنٹ کے باوجود فرار کی صورت میں چھوڑ گئی ،پاکستان میں تجزیہ کار بھول جاتے ہیں کہ اس سارے منظر نامے میں وہ خلاء یہاں کہیں نظر نہیں آتا،افغان نیشنل آرمی پناہ لینے بھاگ گئی تو طالبان کو موقع غنیمت جان کر تخت کابل پر قبضہ کرنے میں دیر نہیں لگی ۔دوسرا اس بیس سالہ دور میں افغان قیادت جو اب سابق ہوچکی ہے کسی مرحلے پر طالبان کو اپنا اسٹیک ہولڈر تسلیم نہیں کیا ،اس کے برعکس پاکستان میں نہ قومیتوں کا جھگڑا ہے نہ ہی زبان کے نام پر ایسی کوئی صورتحال ہے جس بل پر کوئی گروہ اٹھ کر فوج جیسے مضبوط ادارے کو چیلنج کرسکے ،یہاں نظام بھی درست ہے اور اس کو چلانے والے اپنی غلطیوں کی قیمت عوام کی جانوں سے وصول نہیں کرتے ،افغان عوام لکیر پیٹنے کی بجائے آگے کا سوچیں اور پرانی غلطیوں کو نہ دوہرائیں تو طالبان ان لوگوں سے بہتر ثابت ہونگے جو افغان حمیت کو ڈالروں کے بریف کیس میں بھر کر ساتھ لے گئے ۔صحافی تجزیہ کرتے ہوئے یہ تمام معروضی حالات سامنے رکھیں تو امید ہے افاقہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں