بین الافغان امن مذاکرات دوحہ قطر میں شروع ہونے کا امکان، زلمے خلیلزاد کا کردار انتہائی مثبت اورمتحرک رہا، افغان طالبان

پشاور ( دی خیبرٹائمز افغان ڈیسک ) افغانستان میں مستقل اور پائیدار قیام امن کیلئے جاری کوششوں کے حوالے سے افغان طالبان زرائع کا کہنا ہے، کہ 28 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے تحت 10 مارچ کو بین الافغان امن مذاکرات شروع ہونے تھے، تاہم قیدیوں کی معاملے پرافغان حکومت اور امارت اسلامی افغانستان ( افغان طالبان ) کے مابین بین الافغان امن مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا، جو اب تک جاری ہے، افغان طالبان زرائع نے دی خیبرٹائمز کو بتایاہے، کہ ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیلزاد کا کردار انتہائی مثبت اور متحرک رہا، جس کی کوششوں سے اب ڈیڈلاک کے خاتمے کا امکان ہے، قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی اپنی انجام تک پہنچنے کے قریب ہے، بین الافغان امن مذاکرات کیلئے وقت اور مقام کے تعین کیلئے بات چیت ہورہی ہے، جس کیلئے جرمنی، ناروے، اور ازبکستان کی حکومتوں نے میزبانی کا کردار آداکرنے کی آفر کی ہے، تاہم امکان ظاہر کیا جارہاہے، کہ بین الافغان امن مذاکرات کا پہلا راؤنڈ دوحہ میں ہونے کا امکان ہے، جہاں پہلے سے طالبان کا ٹیم بھی موجود ہے، اور یہاں اعتماد کی بھی فضا قائم ہے،

زلمے خیلزاداس وقت امن مشن کے دورے پر ہے، جو امریکا سے دوحہ قطر پہنچ گیا ہے، افغان طالبان قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہاہے، کہ آج پیر کے روز زلمے خلیلزاد نے امارت اسلامی افغانستان کے نائب آمیر اور مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا برادر کے ساتھ ملاقات کی ہے، اس موقع پر افغانستان میں متعین نیٹو کے کمانڈر جنرل سکاٹ میلر اور قطر کے وزارت خارجہ کے نمائندے، متلاق الحقانی بھی شریکت رہے، اجلاس میں امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ امن معاہدے کے تحت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی اور بین الافغان امن مذاکرات کو جلد شروع کرنے پر بات چیت کی گئی، زلمے خلیلزاد قطر کے بعد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کا دورہ کرینگے، اور پھر کابل جائینگے،
افغان حکومت کے ترجمان صدیق صدیقی نے افغان میڈیا کو بتایا ہے، کہ طالبان کے ساتھ آمنے سامنے تیار مذاکرات کیلئےحکومتی ٹیم تیار ہے، جسے خصوصی طیارے کے زریعے دوحہ بھیجا جائیگا۔
افغان میڈیا کے مطابق جلد ہی طالبان کے باقی قیدیوں کی رہائی کا امکان ہے، جس سے بین الافغان امن مذاکرات میں میں رکاوٹیں دور ہوسکتی ہے،
مبصرین کے مطابق افغانستان میں قیام امن کی راہ میں آج بھی بعض قوتیں رکاؤٹیں بنیں ہیں، جس میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا قریبی حلقہ بھی ہے، مبصرین کہتے ہیں، کہ بعض قوتیں افغانستان کی سرزمین پر جنگ ہی میں اپنے فائدے ڈھونڈ رہے ہیں، مبصرین یہ بھی کہتے ہیں، کہ افغانستان میں قیام امن سے سب سے بڑا دکھ بھارت کو ہوگا، جہاں اس نے ایک طویل کوشش کرکے پاکستان کے خلاف ایک فضا قائم کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں