ابراہیم خان
عنوان دیکھ تو ایسا لگتا ہے کہ ذکر کتوں کا ہوگا لیکن در حقیقت یہ ذکر ہے کورونا کے ستائے پشاورکےصحافیوں کا ہے جن کے ساتھ صوبے کی حکومت کتوں والا نہ سہی توبھیڑ بکریوں کا سا سلوک روا رکھے ہوئے ہے.
ملاحظہ کیجئے پنجاب کے دل لاہور سے جاری ہونے والی ایک خبر .
صوبہ پنجاب میں کرونا سے متاثرہ 46 صحافیوں کی پہلی فہرست فائنل ہوگئی جس کے تحت لاہور کے مختلف میڈیا اداروں کے کرونا وائرس سے متاثرہ صحافیوں کو حکومت پنجاب کی جانب سے 1 لاکھ روپے فی کس کے امدادی چیک دئے جائیں گے.حکومت پنجاب نےپہلی فہرست کی منظوری دے دی تاکہ متاثرہ صحافیوں کی اور ان کے خاندان کی معاشی مشکلات کے اس دور میں بروقت دلجوئی ہوسکے۔حکام نے صحافیوں کویقین دلایا کہ اس کے بعد بھی اگر کوئی صحافی متاثر ہوا تو اس کو بھی امداد ملے گی۔
یہ خبر پاکستان کے ہی ایک ایسے صوبے کی ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر وہ اپنے صحافیوں کو متاثر ہونے پر ایک لاکھ روپے فی کس دے رہی ہے جبکہ ہمارے صوبے میں تو انصاف پچھلے سات برس سے جوتوں میں بٹ رہا ہے اور اس کی حالت یہ ہے.دوسری طرف پنجاب میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کو ایک لاکھ روپے ملےجبکہ پشاور میں شہید صحافت فخرالدین سید کے لاشے کوکورونا سے شہید ہونے پر دس لاکھ روپے کی سلامی دی گئی.
لاہور کے صحافیوں کیلئے یہ اعلان دیکھ کر میری نظروں کے سامنے شہزاد کاظمی, آصف شہزاد, واجد شہزاد, عامر علی شاہ, عمران علی , رحم، عماد وحید اور دیگر متاثرہ ساتھیوں کے چہرے آگئے. کورونا تو ان کوبھی ہوا لیکن انہوں نے تو گھمبیر مالی حالات میں بھی اپنے علاج کا خرچہ بھی خود برداشت کیا. ان میں فخرالدین سید شہید کی طرح اکثر اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں..اس فہرست میں تازہ ترین اضافہ معصوم اور ہنستی صورت والے عماد وحید کا ہے. اس کہنہ مشق فوٹوگرافر کی تنخواہ حسب معمول لیٹ ہے. وہ گھر کا اکیلا کفیل ہے. وہ کیسے کورونا سے لڑ رہا ہے یہ تو وہ یا اس کا اللہ ہی جانتا ہے لیکن میری اس سے جب بھی بات ہوئی تو اس کی دبی دبی کھانسی میں وہ کرب چیخ چیخ کر مجھے جھنجوڑ رہا تھا کہ میرے لئے کچھ کرو…..
ڈئیر عماد میں تم سے شرمندہ ہوں کہ مجھے بے حسوں کی اس حکومت میں نہ تو کوئی عثمان بزدار نظر آرہاہے اور نہ ہی کوئی فیاض الحسن چوہان جو صحافیوں کے دکھ کا عملی مداوا کرسکے.
عماد وحید تو ایک مثال ہے لیکن عماد اور اس جیسے دوسرے دوستوں کو میں صرف یہی کہوں گا کہ یہاں محمود خان کی خانی بھی ہے اور اجمل کی وزیری بھی لیکن اگر نہیں تو ان میں زندہ صحافیوں کی مدد کا سرے سے احساس ہی نہیں. ہاں البتہ فخر الدین سید شہید کی لاش کو نذرانہ دینا ہو تو اجمل وزیر بستر سے نکل کر بغیر کنگھی کئے بالوں کساتھ جنازے میں آکر اعلان داغ سکتے ہیں.
سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی ان دونوں صوبوں کی حکومتوں میں فرق کیاہے ؟
اس کا جواب شاید بہت سوں کو برا لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ
پنجاب کا کتا تو ٹومی لیکن ہمارے یہاں کا کتا بس کتا ہی ہے
سوچئے اور سب مل کر ان متاثرین کے بارے میں کوئی لائحہ عمل اپنی مدد آپ کے تحت اپنائیں….
یہ بھی پڑھئے : فخر واقعی قابل فخر۔۔۔ خصوصی تحریر: ابراہیم خان