خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایک بڑی ہلچل نے جنم لیا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ “وزیراعلیٰ کا عہدہ عمران خان کی امانت ہے، جب وہ چاہیں میں استعفیٰ دے دوں گا۔”
یہ بیان بظاہر وفاداری کا اظہار ہے، مگر دراصل تحریک انصاف کے اندر ابھرنے والی نئی دراڑوں کا اشارہ بھی ہے۔
ذرائع کے مطابق، عمران خان اور علی امین گنڈاپور کی حالیہ ملاقات میں تلخی پیدا ہوئی۔ عمران خان نے گنڈاپور سے شکوہ کیا کہ اُن کے خاندان اور سوشل میڈیا سے وابستہ عناصر کی سرگرمیاں ان کی رہائی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ گفتگو علی امین پر اعتماد کے خاتمے کا پیش خیمہ بنی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گنڈاپور نے اپنا استعفیٰ تیار کر لیا ہے اور وہ جلد گورنر خیبر پختونخوا کو سمری کے ذریعے ارسال کریں گے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے بھی اس پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ علی امین نے خود کیا ہے۔ تاہم، بیرسٹر سیف اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچے ہیں تاکہ اس فیصلے کو مؤخر یا تبدیل کرایا جا سکے۔ اس خصوصی ملاقات کی اجازت صرف سیف کو ملی ہے، جو اس معاملے کی حساس نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔
تحریک انصاف کی سیاست ہمیشہ مرکزی کنٹرول کے گرد گھومتی رہی ہے۔ عمران خان اپنی جماعت کے اندر فیصلہ سازی پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ کسی بھی صوبائی یا تنظیمی رہنما کو خود مختاری کی گنجائش کم ہی ملتی ہے۔
علی امین گنڈاپور، جو کبھی عمران خان کے قریبی ساتھی اور سخت گیر بیانیے کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے، اب اسی نظم و ضبط کے نشانے پر ہیں۔
اگر علی امین مستعفی ہو جاتے ہیں، تو عمران خان کی پارٹی پر گرفت مزید مضبوط ہوگی، تاہم اس کے ساتھ صوبائی سطح پر انتظامی بحرانپیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے۔پی ٹی آئی اس وقت دو واضح دھڑوں میں بٹی نظر آتی ہے:
وفادار دھڑا ۔۔۔ جو مکمل طور پر عمران خان کے احکامات کے تابع ہے۔عملیت پسند دھڑا جو حکومت چلانے اور عوامی مسائل کے حل پر توجہ دینا چاہتا ہے۔
علی امین کا تعلق دوسرے دھڑے سے سمجھا جاتا ہے، جو “پالیسی عملداری” اور زمینی حقائق پر مبنی فیصلوں کا حامی ہے۔
ذرائع کے مطابق، پارٹی کے اندر نئے وزیراعلیٰ کے نام پر بھی غور جاری ہے۔ قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سہیل آفریدی کا نام اس فہرست میں سرفہرست بتایا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر بڑھتے اختلافات اور اراکین اسمبلی کی بے چینی کے باعث جو بھی وزیراعلیٰ آئے گا، اس سے صوبے کے حقیقی مسائل کے حل کی زیادہ توقع نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ناراضگی کی ایک بڑی وجہ علی امین کا فوجی آپریشنز پر متضاد مؤقف تھا۔ وہ بظاہر مخالفت کرتے رہے مگر پسِ پردہ مشاورت کا حصہ بھی بنے۔ اسی طرح عمران خان کی بہن علیمہ خان سے متعلق بیانات اور صوبائی سطح پر بعض متنازع فیصلے بھی مرکزی قیادت کو ناپسند آئے۔
وزیراعلیٰ پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات بھی موجود ہیں، جن میں بیشتر ان کے اپنے ہی پارٹی اراکین کی جانب سے لگائے گئے۔ حال ہی میں دو وزراء کو عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ بھی پارٹی میں ناراضی کا باعث بنا۔
علی امین گنڈاپور کا ممکنہ استعفیٰ تحریک انصاف کی اندرونی سیاست کا اہم موڑ ہے۔ اگر عمران خان انہیں ہٹا دیتے ہیں تو یہ واضح پیغام ہوگا کہ وہ اپنی سیاسی گرفت کسی صورت کمزور نہیں ہونے دیں گے، جبکہ فیصلہ موخر ہونے کی صورت میں مصالحت کی کوششوں کا تاثر ملے گا۔
دونوں صورتوں میں، خیبر پختونخوا کی سیاست ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ پی ٹی آئی کے مستقبل اور عمران خان کی اندرونی حکمتِ عملی کے لیے بھی فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔