پشاور (دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ ) خیبرپختونخوا کی سیاست میں ایک نیا تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ صوبائی اسمبلی کے 22 اراکین نے فوج کو بیانِ حلفی دیا ہے۔ اس انکشاف نے نہ صرف اسمبلی کے ماحول کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی اختلافات کو بھی مزید نمایاں کر دیا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مطابق بعض اراکینِ اسمبلی نے فوج کو اپنی وفاداری کے ثبوت کے طور پر بیانِ حلفی جمع کروائے ہیں۔ اس بیان نے صوبے کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے:
* کیا عوامی نمائندے کسی ادارے کو براہِ راست وفاداری کا حلف دے سکتے ہیں؟
* اگر یہ الزام درست ہے تو کیا یہ جمہوری اقدار اور آئین سے انحراف نہیں؟
* یا یہ بیان پارٹی کے اندرونی خلفشار کو قابو کرنے کی ایک سیاسی حکمت عملی ہے؟
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ نے ایسا بیان دیا ہو۔ ماضی میں سینیٹ انتخابات کے موقع پر بھی انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بعض اراکین اسمبلی فوج یا دیگر قوتوں سے رابطے میں ہیں۔ اُس وقت یہ دعویٰ زیادہ طول نہیں پکڑ سکا، تاہم اب دوبارہ وہی معاملہ اٹھنے سے پارٹی کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا پہلے ہی اپوزیشن کے دباؤ اور گورننس کے مسائل کے باعث مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ اب پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔
پی ٹی آئی پشاور کے سٹی صدر عرفان سلیم نے اپنے ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر وزیراعلیٰ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اراکین کے درمیان بداعتمادی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی کے اندرونی اختلافات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اب وہ عوام کے سامنے آنے لگے ہیں۔
* اگر واقعی 22 ایم پی ایز نے فوج کو بیانِ حلفی دیا ہے تو یہ نہ صرف صوبائی سیاست بلکہ ملکی جمہوری ڈھانچے کے لیے بھی خطرناک اشارہ ہے۔
* اگر یہ محض سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے بیان دیا گیا ہے تو اس سے پارٹی کے اندرونی اختلافات مزید گہرے ہو جائیں گے اور اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کا مزید موقع ملے گا۔
* بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال ماضی کے اُس سیاسی کلچر کی یاد دلاتی ہے جہاں “فارورڈ بلاکس” اور وفاداریوں کی تبدیلی صوبائی سیاست کا حصہ رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی سیاست ماضی میں بھی وفاداریوں کی تبدیلی (floor crossing) اور فارورڈ بلاکس کے رجحان سے متاثر رہی ہے۔ ایوب خان کے دور سے لے کر 2002 کے انتخابات تک، اس صوبے میں متعدد بار ایسی صورتحال دیکھنے کو ملی ہے جہاں اراکین نے اپنی جماعتوں کو چھوڑ کر نئی وفاداریاں نبھائیں۔ یہی تاریخی پس منظر موجودہ تنازع کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔
اب یہ ذمہ داری پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے اس بیان کی وضاحت طلب کریں۔ اگر 22 اراکین کے نام سامنے نہیں لائے گئے تو یہ تنازع محض افواہوں اور شکوک کا باعث بن کر صوبائی حکومت کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یہ معاملہ صرف ایک بیان کا نہیں بلکہ صوبے کے سیاسی مستقبل اور جمہوری اقدار کا ہے۔ اگر اس پر شفاف وضاحت نہ دی گئی تو یہ بحران پارٹی کے اندرونی انتشار کو مزید بڑھا دے گا اور صوبائی سیاست کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔