قبائلی ضلع باجوڑ میں عوامی نیشنل پارٹی کے اہم رہنما اور امن کے داعی مولانا خانزیب صاحب کو نامعلوم نقاب پوش افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ بدامنی کے خلاف اور امن و امان کے قیام کے لیے ایک عوامی ریلی میں شرکت اور تقریر کرنے جا رہے تھے۔ مولانا صاحب نے ہمیشہ امن کے قیام کے لیے آواز اٹھائی، جس کی وجہ سے بعض عناصر ان کے خلاف تھے۔
ان کی شہادت کے بعد نہ صرف باجوڑ بلکہ پوری پشتون آبادی غم و غصے اور افسوس میں مبتلا ہے۔ لوگ خون کے آنسو رو رہے ہیں اور مسلسل سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر قبائلی اضلاع میں امن کب بحال ہوگا؟ سابقہ فاٹا کے تمام قبائلی اضلاع اس وقت شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہیں۔ بار بار آپریشنز اور سیکیورٹی اقدامات کے باوجود لوگ اپنے گھروں سے نکلنے میں خوف محسوس کرتے ہیں، جبکہ مسلح تنظیمیں ایک بار پھر مضبوط ہو رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں میرعلی، جنوبی وزیرستان (وانا، انگور اڈہ، مکین) اور قبائلی ضلع خیبر میں تاریخ ساز احتجاج ریکارڈ کیے گئے۔ یہ احتجاج اس بات کی علامت ہیں کہ عوام اب مزید خاموش رہنے کو تیار نہیں۔ لوگ ریاست اور سیکیورٹی اداروں سے سوال کر رہے ہیں کہ آخر کب تک وہ لاپرواہی اور کمزوری کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟
عوام کا مطالبہ ہے کہ ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، امن کے قیام کو یقینی بنائیں اور بے گناہ شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ اگر یہ روش جاری رہی تو قبائلی اضلاع میں بدامنی مزید بڑھ سکتی ہے، جس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے۔
ق
قبائلی اضلاع کے عوام اب مزید خاموش نہیں رہیں گے۔ انہیں انصاف، امن اور تحفظ چاہیے۔ ریاستی اداروں کو اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔
کیا آپ اس میں کوئی خاص پوائنٹ یا اقتباس شامل کرنا چاہتے ہیں؟