پشاور۔ دی خیبرٹائمز مانیٹرنگ ڈیسک ۔
بلوچ حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی ایک ماہ کی نظر بندی کی مدت مکمل ہونے کے باوجود ان کی رہائی عمل میں نہیں آئی، اور جیل انتظامیہ نے ان کے خاندان کو غیر رسمی طور پر آگاہ کیا ہے کہ ان کی حراست میں توسیع کر دی گئی ہے۔
ڈاکٹر مہرنگ کے وکیل عمران نے بتایا کہ، “مہرنگ کو صرف ایک ماہ کے لیے حراست میں رکھا جانا تھا، جو آج ختم ہو رہا ہے۔ تاہم، محکمہ داخلہ کی جانب سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا، بلکہ ہمیں صرف جیل انتظامیہ کے ذریعے مطلع کیا گیا۔”
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مہرنگ کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا ہے، لیکن حراست میں توسیع کا باضابطہ اعلان محکمہ داخلہ کی کمیٹی کو کرنا تھا، جس نے ان کی نظر بندی میں اس بنیاد پر توسیع کی کہ مہرنگ کے اہل خانہ کو قانونی چارہ جوئی کا موقع دیا جائے۔
وکیل عمران نے مزید کہا، “ہمیں تاحال کوئی تحریری اطلاع موصول نہیں ہوئی، اس لیے ہم محکمہ داخلہ سے باقاعدہ نوٹس کے لیے درخواست دیں گے۔ اگر ہمیں نوٹیفکیشن نہ دیا گیا تو ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔”
ڈاکٹر مہرنگ کی گرفتاری پر ملک بھر میں بلوچ حقوق کے کارکنوں اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی محافظین کے لیے نمائندہ خصوصی، میری لاولر نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ وہ ڈاکٹر مہرنگ اور دیگر کی گرفتاری پر “انتہائی فکرمند” ہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (HRCP) نے بھی اپنی ٹوئٹ میں ریاست کو متنبہ کیا کہ اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے “غیر متناسب اقدامات سے گریز کیا جائے۔”
بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-مینگل) نے بلوچ یوتھ کانسل (BYC) کے رہنماؤں اور کارکنوں، بشمول ڈاکٹر مہرنگ اور سمی دین بلوچ کی گرفتاری کے خلاف 28 مارچ کو وڈھ سے کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ سمی دین بلوچ کو ایک ہفتہ حراست میں رکھنے کے بعد 1 اپریل کو کراچی کی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
لانگ مارچ کے اختتام پر، 16 اپریل کو مستونگ میں 20 روزہ دھرنا ختم کر دیا گیا، اور پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ اب ایک عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرے گی تاکہ بلوچ عوام کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جا سکے اور ان کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔