رات 8 بجے دوکانیں، مارکیٹیں اور کاروباری مراکز بند کرنے کا فیصلہ تنظیم تاجران خیبر پختونخوا نے مسترد کردیا

تنظیم تاجران خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت کا ملک بھر میں رات 8 بجے دوکانیں، مارکیٹیں اور کاروباری مراکز بند کرنے کا فیصلہ مسترد کر دیا۔ تنظیم تاجران خیبر پختونخوا کے مطابق وفاقی حکومت کا مذکورہ فیصلہ کسی صورت قابل عمل نہیں۔ تاجروں کی مشاورت کے بغیر اس طرح کے حکم جاری کرنا تاجروں کا معاشی قتل کے مترادف ہے۔

اسی حوالے سے رابطہ کرنے پر تنظیم تاجران خیبر پختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات شہزاد صدیقی نے بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا پہلے دہشتگردی کا شکار رہا، پھر سیلاب کی تباہ کاریوں اور کرونا وباء کی وجہ سے صوبے کی تاجر برادری و چھوٹے مختلف کاروباروں سے وابسطہ لوگ شدید متاثر ہو چکے۔ صوبے کے کئی تاجران یا دیگر لوگ متاثر ہوجانے کے بعد اپنا روزگار یا کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب ایسے میں وفاقی حکومت کاروباری طبقات کو مزید کچلنا چاہتی ہے۔ کئی سالوں سے وفاق کو خیبر پختونخوا کے تاجران بتاتے آرہے ہیں کہ انکو سپورٹ کیا جائے۔ خصوصا چھوٹے کاروباریوں کیلئے بلاسود قرضے دئیے جائیں تاہم آج تک تاجروں کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔

شہزاد صدیقی کا کہنا ہے کہ آج کل گرمیوں کا موسم ہے۔ شدید گرمی کے باعث خریدار عموماً شام کے بعد بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ زیادہ تر خرید و فروخت شام کے بعد کیا جاتا ہے۔ ایسے میں تین کاروبار یعنی میڈیسن، شادی ہالز اور ہوٹلز کو کسطرح رات 8 بجے بند کیا جا سکتا ہے۔ میڈیسن سٹورز کو تو شائد کوئی نا کوئی ریلیف ملے گا لیکن صوبہ بھر میں لوگ شام کے بعد فارغ ہو کر ہوٹلز کا رخ کرتے ہیں اگر وہ وقت پر بند کئے جاتے ہیں تو لوگ کھانا کہاں کھائیں گے۔ اسی طرح شادی ہالز جوکہ ایک بڑا کاروبار ہے۔ عموماً دن میں مصروفیات کیوجہ سے آجکل لوگ شادی تقریبات رات ہی کو کراتے ہیں جب انکو بھی 8 بجے بند کیا جائے تو شادی ہالز کا کاروبار تو ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔

شہزاد صدیقی نے مزید بتایا کہ شہری علاقوں، دیہاتی علاقوں یا دور دراز علاقوں میں ویسے بھی شام کے بعد مارکیٹیں یا کاروبار بند ہو جاتے ہیں۔ پشاور کے صدر بازار، یونیورسٹی روڈ کا مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تجارتی مراکز بے شک رات دیر گئے تک کھلے رہتے ہیں لیکن یہ چونکہ کاروبار کے پیک اوقات ہیں تو ان اوقات میں تو حکومت بجلی کا استعمال ہونے والے یونٹس کا ان سے زیادہ پیسے لے رہی ہے مطلب اس وقت استعمال ہونے والا بجلی یونٹس انکو مہنگا مل رہا ہے جو تاجران بخوشی حکومت کو ادائیگیاں کر رہی ہیں۔ الٹا تو حکومت کو فائدہ ہی مل رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ توانائی بچت پالیسی کا آغاز حکومت اپنے آپ سے کیوں نہیں کر رہی؟ واپڈا ملازمین یا دیگر سرکاری طبقات کو تو تنخواہیں مل رہی ہیں پھر بجلی کے فری یونٹس کی فراہمی کیوں؟ وفاقی حکومت پہلے تو وہ ختم کریں۔ اسی طرح ملکی سرکاری اداروں میں ائیر کنڈیشنز کا استعمال کم کیا جائے یا اداروں میں جو بلب یا روشنی کے لئے دیگر ذرائع ہیں ان میں کمی تو لائی جائے۔ معیشیت تو اسی طرح ٹھیک نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے لئے قوانین اور دوسروں کیلئے کچھ اور۔

سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور بجلی کے بچت کے سوال پر شہزاد صدیقی کہتے ہیں کہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں صبح سویرے کاروبار شروع کرکے شام ہی کو بند کئے جاتے ہیں لیکن معاشی طور پر وہ ممالک مستحکم ہوتے ہیں اور وہاں بڑے تاجران، کاروباریوں یا چھوٹے باروزگار طبقات کو تو حکومتیں مکمل سپورٹ بھی کر رہی ہیں۔ ہمارے ہاں تو کاروباریوں پر جرمانوں، ٹیکسوں اور پابندیوں کی بھرمار رہتا ہے۔

یہاں تو کرونا وباء کے دوران ہم نے حکومت سے تعاون کیا۔ پھر دیکھا گیا کہ پولیس اور ضلعی انتظامیے اپنی منافع کیلئے رات کو بھی دوکانیں کھلواتے رہے۔ لہذا کاروبار کی بندش کے فیصلے کا اختیار صوبائی حکومتوں کو دیا جائے نہ کہ وفاق اسی طرح کے فیصلے کیا کریں۔ حکومت کے اس فیصلے سے تاجروں کی جانب سے خلاف ورزی پر کرپشن کا بازار گرم ہوگا۔

شہزاد صدیقی نے مزید بتایا کہ کرونا وباء کے دوران وفاقی حکومت اور تاجروں نے ملکر ایک میکنزم بنایا تھا لہذا اب بھی وقت ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز ملکر ایک ایسا میکنزم بنایا جائے کہ توانائی کا بھی بچت ہو اور لوگوں کے کاروبار و روزگار بھی متاثر نہ ہوں۔ لہذا تنظیم تاجران خیبرپختونخواہ آل پاکستان انجمن تاجران کے حکومتی فیصلے کے ردعمل میں جاری کردہ بیانیہ کی حمایت کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہی روز وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کے ایک اجلاس میں قومی توانائی بچت پلان کے تحت ملک بھر میں مارکیٹیں اور دکانیں
رات 8 بجے بند کر نیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلے پر یکم جولائی سے عملدرآمد ہوگا۔ وفاقی حکومت کے مطابق صوبوں نے مزکورہ فیصلے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرادی ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق اس اقدام سے سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں