صوبائی حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے، صنفی تشدد، بچوں سے مشقت اورکم عمری کی شادی جیسے معاملات کے خاتمے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ شوکت یوسفزئی

پشاور ( پ ر ) خیبر پختونخوا کے وزیر محنت و پارلیمانی امور شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے، صنفی تشدد، بچوں سے مشقت اورکم عمری کی شادی جیسے معاملات کے خاتمے کے لئے علماء کرام کی مشاوت سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ شانگلہ میں کوئلے کی کان کے مزدوروں کے لئے بھی نئے لیبر ایکٹ میں بہترین تعلیمی وطبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں نئے لیبر لاز میں بچوں پر تشدد اور ان کے استحصال کے خلاف نئی ترامیم بھی لائی جا رہی ہیں جس سے بچوں سے جبری مشقت، چائلڈ بیگنگ، کم ماہانہ اجرت، دیگر جرائم کے خاتمے میں خاطر خواہ کمی آئیگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی تنظیم آواز دو کے زیر اہتمام عمرا صغر خان فاؤنڈیشن برٹش کونسل اور محکمہ سوشل ویلفیئر کے تعاؤن سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ اس موقع پر برٹش کونسل پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر مارک کراسی، سیکرٹری سوشل ویلفیئر ذوالفقار علی شاہ اور وومن کمیشن کے چئیر پرسن ڈاکٹر رفعت سردار بھی موجود تھیں۔ آواز دو پراجیکٹ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں بچوں اور عورتوں کے حقوق، صنفی تشدد اور امتیاز کے خلاف انکے حقوق کیلئے آگاہی مہم چلاتی ہے۔ یہ پراجیکٹ بچوں کی کم عمری میں شادی، بچوں پر مشقت اور صنفی تشدد معذوراور اقلیتوں کے حقوق کے لئے بھی آواز اٹھا تی ہے، صوبائی وزیر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی تنظیموں کو دور دراز علاقوں شانگلہ کوہستان اور دیگر اضلاع میں کوئلے کان کے مزدوروں کے حقوق کے لئے بھی آگاہی مہم اٹھانی چاہیئے تا کہ میڈیا اور ملک کے دیگر حصوں کے عوام کو انکی تکالیف اور مسائل کا اندازہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بچوں کے مسائل حل کرنے کیلئے زمونگ کور پراجیکٹ کو صوبے کے دیگر اضلاع کے ساتھ ضم اضلاع میں فعال بنا رہی ہیں تا کہ وزیر اعظم عمران خان کے وژن کے مطابق صحیح معنوں میں بچوں کی کفالت اور اصلاح پر توجہ دی جا سکے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کے ساتھ لیبر سروے جون 2022 تک مکمل کیا جائیگا اور اس حوالے محکمہ سوشل ویلفئیر کو بھی فعال بنا رہے ہیں۔ نئے لیبر ایکٹ کے تحت بچوں کو سہولیات دے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جیل، جرمانے کی سزا بھی زیر غور ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ سکول کے اساتذہ کو بچوں پر تشدد سے اجتناب کرنا چاہئیے کیونکہ بچوں پر تشدد سے انکی ذہنی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہے انکا کہنا تھا کہ ہمارے مذہب میں بچوں اور عورتوں کے حقوق کے لئے ایک بہترین نظام موجود ہے جس پر عمل در آمد کرکے معاشرتی اور سماجی برائیوں کی روک تھام کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے علماء کی مشاورت سے کم عمری میں شادی اور عورتوں پر تشدد جیسے مسائل پر مذہب کی روشنی میں نئی ترامیم لائی جا رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں