میرانشاہ ( دی خیبرٹائمز ڈسٹرکٹ ڈیسک) شمالی وزیرستان میں بڑھتی ہوئی بد امنی اور آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس افیسر شمالی وزیرستان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ ذاتی دشمنیوں میں ہونے والے قتل کی وارداتوں کو لوگ ٹارگٹ کلنگ کا رنگ دے رہے جبکہ عوام پولیس کے ساتھ تفتیش کے عمل میں بھی تعاون نہیں کر رہے ہیں۔عام شہری بھی ایسے واقعات میں کسی کا نام لینے سے ہچکچاتے ہیں تاکہ وہ قانون کے بجائے از خود روایتی قبائلی طریقے سے بدلہ لے سکے۔ ہفتے کے روز ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان اور ڈی پی او شمالی وزیرستان شفیع اللہ گنڈاپور نے میرانشاہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پولیس، ضلعی انتظامیہ اور پاک فوج شمالی وزیرستان میں امن امان کی بحالی کیلئے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں ، تاہم عوام کی طرف سے اس حوالے سے عدم تعاون کے باعث گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔ ڈی سی نارتھ شاہد علی خان کا کہنا تھا کہ نقاب اوڑھ کر اپنی پُرانی دشمنی کے بدلے لینے کے واقعات کے باعث عوام میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کو جلد بے نقاب کرینگے اور قانون کے مطابق سخت سزائیں دی جائیگی۔ ڈی پی او شفیع اللہ گنڈاپور نے بتایا کہ اکثر کیسوں میں لوگ یا تو سرے سے رپورٹ ہی نہیں کرتے اور اگر رپورٹ کرے بھی تو قاتلوں کے نام بتانے سے گریز کرتے رہے ہیں، تاکہ قانون کے بجائے وہ خود پشتون روایات کے مطابق اپنے پیاروں کے قاتلوں کو قتل کرکےبدلہ لیں، جوکہ قانی طور پر ایک جُرم ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ ایسے کیسز میں اپنے حق کی دعویداری سے لوگ گریز نہ کریں بلکہ ریاستی اداروں پر یقین رکھیں اور ایسی صورت میں انہیں مکمل انصاف ملے گا۔ ڈی پی او شمالی وزیرستان نے مزید وضاحت کی کہ سال 2019 سے یہاں پولیس نے کام شروع کیا ہے اور اب تک گذشتہ تین سالوں میں مجموعی طور پر 140مقدمات میں 571 ملزمان کو چارج کیا گیا ہے، جن میں سے 77 ملزمان پولیس نے گرفتار کئے ہیں۔ ڈی پی او نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ غیرت کے نام پر گذشتہ تین سالوں میں 15ملزمان پرمقدمے قائم ہوئے ہیں اور پولیس نے تمام ملزمان کو گرفتار کرکے قانون کے سامنے پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ رواں سال شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے 18واقعات ہو ئے ہیں جن میں بیس سے زائد لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ سال 2020 میں 46 اور سال 2019 میں ٹارگٹ کلنگ کے 51 واقعات رپورٹ ہو ئے تھے۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments