میرانشاہ ( دی خیبرٹائمز ڈسٹرکٹ ڈیسک ) گذشتہ روز نورک کے مقام پر مرسی خیل ( بورا خیل ) اور حکیم خیل و مبارکشاہی ( داوڑ ) قبیلوں کے مابین اراضی کے تنازعہ پر کشیدگی کے دوران ایک شخص کے جاں بحق ہونے اور کچھ تعمیرات کی مسماری کے بعد بوراخیل قبیلے سے منسوب ایک ہاتھ سے لکھی ہوئی پمفلٹ میں میرانشاہ میں پاکستان مارکیٹ اور امان مارکیٹ سے داوڑ قوم کے دکانداروں کو دھمکی دی گئی ہے کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر اپنے دکانات کو خالی کردیں بصورت دیگران کو جانی و مالی نقصان کا بورا خیل قوم ذمہ دار نہ ہوگا۔
اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کی وساطت سے ڈسٹرکٹ پریس کلب میرانشاہ اور وزیرستان یونین اف جرنلسٹس کے کابینہ کے اراکین کو بتایا گیا ہے کہ بورا خیل قوم کے مشران نے اس پمفلٹ کی سختی سے ترید کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کے پمفلٹ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ علاقے میں امن وامان کو خراب کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے ۔
اراضی کے تنازاعات وزیرستان میں کوئی نئی بات نہیں اور اس میں قتل مقاتلہ کی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن وزیرستان کو قومیت کی بنیاد پر ایک جہنم بنانے کی یہ پہلی مثال ہے جس کے پیچھے کسی شر پسند قوت کا ہاتھ لازمی دیکھائی دیتا ہے ۔ وزیر اور داوڑ قبیلے وزیرستان میں ایک جسم کی مانند ہیں اور اس قسم کے شیطانی ہتھکنڈے دونوں قبیلوں کو ایک ایسی اگ میں جھونکنے کے مترادف ہوگا جس میں دونوں بیک وقت جلتے ہونگے اور کسی کی جیت یا ہار کا کوئی تصور اس میں نہیں ہوگا ۔
لڑائی جھگڑے دو بھائیوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پورے وزیرستان کو اراضی کے ایک ٹکڑے کی خاطر ایک دوسرے کا دُشمن بنایا جائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں دواڑ اور وزیر قبیلے کے مشران اور عمائدین کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ اور پولیس فورس کا بھی فرض بنتا ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ مثبت کردار ادا کریں اور نہ صرف یہ کہ اس قسم کے شیطانی ہتھنکڈوں کو ناکام بنا دیں بلکہ وزیرستان کے طول و عرض میں جہاں بھی تنازعات نے سر اٹھایا ہے پورے انصاف اور عدل کی ترازو میں رکھ کر تمام تنازعات کو حل کریں تاکہ یہ علاقہ ایک بار پھر جنگ کی مہیب بادلوں کے لپیٹ میں نہ ائیں ۔ ہم سب نے مل کر اس قسم کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور ایسی حربوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا ہے ۔ اس موقع پر بورا خیل قبیلے کے مشران کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ان خبروں کی تردید کردیں اور اس کیلئے ہمارے پریس کلب کے دروازے ان کیلئے کھلے ہیں ۔
Load/Hide Comments