ہنگو(منظورخان سے)موسمیاتی تبدیلی کا شکار ضلع ہنگومیں زیرزمین پانی کے اتار چڑھاؤ سے ایک طرف بعض علاقوں میں پینے کا پانی ناپید جبکہ بعض علاقوں کی سبزیاں اور پھل خلیجی ممالک اور یورپ کو ایکسپورٹ ہونے لگے۔ کاشتکاروں کوبیج کے علاوہ تازہ سبزیاں پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت دوسرے ممالک تک بروقت پہنچانے میں دشواری کا سامنا پڑ رہا ہے۔ ایکسپورٹرززمینداروں سے ضلع ہنگو میں کاشت ہونے والا کھیرا اور شلغم خرید کر سہ پہر کو کھیتوں میں پیک کرنے کے بعد کوہاٹ، پشاور اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں ترسیل ہوتی ہیں۔ علاقے میں جدید زراعت کوفروغ ملا ہے۔ مقامی مارکیٹوں میں بھی سبزیاں پشاور، کوہاٹ کی نسبت سستی مل رہی ہے۔ مقامی لوگوں نے بطور روزگار کاشتکاری کا پیشہ اختیارکرلیا ہے۔ جس سے سینکڑوں افراد برسرروزگار ہیں۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پانی کا شدید مشکلات کا سامنا کر رہےہیں، نا ہی ہمیں فصل کیلئے بیج، یوریا وغیرہ کوئی بھی چیز حکومت کی طرف سے مہیاء کی گئی ہے۔ پانی اور بجلی فراہمی یقینی ہوئی تو پیداوار اور ایکسپورٹ میں دگنا اضافہ ہوسکتاہے۔ حکومت ضلع ہنگو کے زمینداروں کو ڈگ ویلز اور سولرائزیشن کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے۔ زمینداروں کا مطالبہ بھی کر دیا۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر ضلع ہنگو نے بتایاکہ ضلع ہنگو میں کاشتکاروں کو روایتی طریقوں سے نکال کرجدید زراعت سے ہم آہنگ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے. محکمہ زراعت کے پاس 3735 زمینداروں نے رجسٹریشن کی ہے۔رجسٹرڈ زمینداروں کووقتا فوقتا ٹنل فارمنگ سکھا کرانہیں معیاری بیج کی سبزیاں کاشت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔اب پہلی بار یہاں کے کاشتکار آف سیزن سبزیاں کاشت کررہے ہیں۔ جبکہ یہاں کی زرخیززمین کھیرا، کریلا، دھنیا، ٹماٹراور آڑو کی بہترین پیداوار دے رہی ہے. امسال کاشتکاروں نے اپنے کھیتوں پر انویسٹمنٹ کرکے سبزیوں کے بہترین پیداوار حاصل کی اور ملک کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی مارکیٹ پیدا کی ہے۔ ضلع ہنگو کی سبزیاں بہترین ہونے کی دلیل دیتے ہے۔ڈی ڈی اے ہنگو۔
تفصیلات کے مطابق ضلع ہنگو زراعت کی مناسبت سے زرعی پیداوار دینے میں تاریخی اہمیت کا حامل ضلع سمجھا جاتاہے۔جس میں محکمہ زراعت ضلع ہنگوکے ریکارڈ کے مطابق تقریباً 10 ہزار کاشتکار یا افراد زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہوکر کاشت کی زمینوں پر فصلیں،باغات اور زرعی اجناس اُگا کر باعزت روزگار کے حامل ہیں ساتھ ہی ساتھ ہنگو میں رجسٹرڈ کسانوں کی تعداد 3735 ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی زمینوں پر تعمیراتی عمل کے باعث جہاں ایک طرف زرعی شعبہ زندگی متاثر ہوا تو دوسری جانب ضلع ہنگو میں آبپاشی کا معقول نظام نہ ہونے سے بھی وقت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں،بارشوں کی کمی اور پانی سیرابی نظام کا معقول نظام کے فقدان نے ضلع ہنگو کے زراعت کو بری طرح متاثر کیا۔ضلع ہنگو کی کاشت کی زمینوں پر اگنی والی فصلوں اور زرعی اجناس میں گندم،مکئی،شلغم،مولی،سرسوں،آڑو،اخروٹ،کینوں،خوبانی،آلوچہ دیگر سبزیاں اور پھل شامل ہیں۔حکومت کی جانب سے مقامی کاشتکاروں کو سہولیات فرآہمی کی مد میں گندم کی اعلٰی کوالٹی بیچ کی خرید میں سرکاری نرخنامے پر مارکیٹ کی مقابلے میں 1200 روپے سے لیکر 2000روپے کی خصوصی رعایت بھی دی جاتی ہےاور یہ عمل تسلسل سے جاری و ساری رکھا جاتا ہے۔نیز کوالٹی کھاد اور یوریا کی کم قیمتوں پر فرآہمی سے بھی کسانوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔زراعت کے شعبے کو فروغ دینے کیلئے اگاہی اور عوامی شعور کو اجاگر کرنا ایک ضروری اور اہم عنصر شمار کیا جاتا ہے۔اگاہی کے حوالے سے حکومت بالخصوص شعبہ زراعت کے سرکاری پلیٹ فارم سے ضلع بھر میں یونین کونسلوں کی سطح پر کسانوں اور زمینداروں کیلئے آگاہی پروگرام،ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جائے،تاکہ زرعی پیداوار بڑھانے کے لئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ زرعی اصولوں سے روشناس کراکے تربیتی کورسز کی وساطت سے مقامی کسانوں کو مستفید کیا جاسکے۔حکومت کی طرف سے تیل دار اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لئے باقاعدہ پروگرام شروع کئے گئے ہیں اور اس سال 100 ایکڑ اراضی پر کینولہ کاشت کرانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔رجسٹرڈ کسانوں کو یوریا کھاد کم قیمت پر فراہم کرنے کے منصوبے پر بھی عملی کام کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو کسانوں کو جدید کاشتکاری کے اصولوں پر عمل پیرا کرنے کیلئے بدوستور اقدامات کی ضرورت ہے۔فی ایکڑ پیداوار کی کمی،کسانوں کی موثر رہنمائی کا بندوبست نہ ہونا اور زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید تقاضوں کے عین مطابق کئی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اگاہی مہم کے سلسلہ میں جدید کاشتکاری کی رہنمائی کیلئے مقامی سطح پر سمینارز اور اگاہی پروگرامات کا اغاز کرنا چاہئے اور کسانوں کیلئے بلا سود قرضوں کی فراہمی کیلئے فوری اقدامات سمیت کسان تنظیموں کا قیام،اور کسانوں کے منتخب ورکرز اور نمائیندوں کو ملک کے دیگر شہروں اور صوبوں کے زرعی فارمز کے وزٹ کرنے بھی ایک اہم مثبت اقدام تصور ہونگے جن سے کسان کو اگاہی ملے گی شبعہ زراعت ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
کسانوں کو اصولوں کے متعلق زراعت سے اگاہی کے حامل لیٹریچر ،کتابوں اعر رسالوں اجرار کوبھی توجہ دینی چاہئے۔علاقائی بالخصوص دیہی علاقوں میں زراعت سے وابستہ خواتین جو کہ کاشت کے حوالے سے زرعی پیداوار بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔جہاں تک خواتین کا کاشتکاری میں کردور ہےتو وہ ااپنے علاقائی روایات اور رسم ورواج کے مطابق باپردہ رہتے ہوئے مردو کے ساتھ شانہ بشانہ کیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔اسے ہی ایک مثال ہنگو کے دیہاتی علاقے ہمیش گل بانڈہ میں بی بی رابیہ نامی خاتون کی ہے جو کہ بیوہ ہونے کے باوجود گزشتہ 45 سالوں سے زرعی زمینوں پر کاشتکاری میں حصہ لیتی ہے۔جسکی بدلے میں زمین مالکان کی جانب سے اس کی رہائش کیلئے مکان اور کاشت شدہ فصل کا 20فیصد کا حصہ ضروریات پورے کرنے کیلئے دیا جاتا ہے۔خیبر پختونخواہ کے قبائلی اور بندوبستی اضلاع میں کاشت کے پیشے سے وابستہ خواتین کو کھیتی باڑی کے جدید تکنیکی مہارت سے روشناس کرانے کیلئے اُن کی سکیل ڈیویلپمنٹ (Skill development )اور کیپسٹی بلڈنگ پر مرکوز سرگرمی کو عوامی سطح پر منعقد کرانے کی اشد ضرورت کو اہمیت دی جائے اور بالخصوص خواتین کو زراعت کے حوالے سے ایجوکیٹ کرانا بھی ترجیحات میں شامل کرنا چاہئیے۔
Load/Hide Comments