وفاق نے ریلیف کے نام پر عوام کے ساتھ بجٹ میں مذاق کیا ہے، مزمل اسلم مشیر خزانہ کے پی۔

پشاور: (دی خیبر ٹائمز) خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے وفاقی بجٹ پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ریلیف کے نام پر مذاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں دیے گئے ریلیف زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے اور مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی مڈل کلاس کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا گیا ہے۔

مزمل اسلم نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ سالانہ 12 لاکھ روپے تنخواہ لینے والوں کو صرف دو ہزار روپے ماہانہ ریلیف دیا گیا ہے، جبکہ 18 لاکھ روپے سالانہ آمدن والوں کے لیے یہ ریلیف بمشکل چار ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اسی طرح 30 لاکھ سالانہ آمدن والے تنخواہ دار طبقے کو بھی صرف 18 ہزار روپے کا معمولی ریلیف دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی اور ٹیکسز کی بھرمار نے ملک کی مڈل کلاس کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ “اگر واقعی مہنگائی کم ہوئی ہے تو پھر غربت کی شرح میں اضافہ کیسے ہو گیا؟” انہوں نے سوال اٹھایا۔ مشیر خزانہ کے مطابق ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جا چکی ہے۔

مزمل اسلم نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر کاربن ٹیکس عائد کر دیا ہے، جس سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور مہنگائی مزید بڑھے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بجلی کے گردشی قرضوں کے خاتمے کے لیے بجلی کے نرخوں پر بھی اضافی سرچارج لگایا جائے گا، جس سے عوام پر مزید بوجھ پڑے گا۔

انہوں نے سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ اقدام عوام کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ “ایک طرف حکومت قابل تجدید توانائی کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف سولر انڈسٹری پر بھاری ٹیکس لگا کر عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔”

مزمل اسلم نے بینکوں اور میوچل فنڈز پر منافع پر ٹیکس میں 15 سے 20 فیصد اضافے کو بھی غیر دانشمندانہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہوں گے اور کاروباری سرگرمیوں میں جمود پیدا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت معیشت کی بہتری کے دعوے کر رہی ہے مگر بجٹ میں ترقیاتی فنڈز صرف ایک ہزار ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پچھلے سال یہ 1400 ارب روپے تھے۔ مشیر خزانہ کے مطابق اس سال خیبرپختونخوا کے لیے پی ایس ڈی پی میں کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ شامل نہیں کیا گیا اور محض 54 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو صوبے کے ساتھ کھلا امتیاز ہے۔

مزمل اسلم نے شکوہ کیا کہ ملک کی تباہ حال زراعت اور صنعت کے لیے بھی بجٹ میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ مزید برآں، آن لائن شاپنگ پر یکمشت 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرکے ای کامرس کے شعبے کو بھی مشکلات سے دوچار کر دیا گیا ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ نے عوام، بالخصوص مڈل کلاس اور کم آمدن والے طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں اور حکومت کے یہ اقدامات معیشت کی بحالی کے دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں