پشاور ( پ ر ) خیبرپختونخوا کابینہ کا اجلاس وزیر اعلیٰ سردار علی امین گنڈا پور کی زیر صدارت پشاور میں منعقد ہوا جس میں توانائی کی پیداوار، تعلیم، فوڈ سیکیورٹی، گندم کی خریداری اور پائیدار ترقی کے علاوہ صوبے میں روزمرہ امور کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔کابینہ نے کوہستان لوئر میں 17 میگاواٹ کے رانولیا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بحالی کی منظوری دی۔ پراونشل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے پہلے ہی 8.1 بلین روپے کی لاگت سے اس منصوبے کی منظوری اس شرط کے ساتھ دی تھی کہ اسے صوبائی کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ کابینہ نے اسے نان اے ڈی پی اسکیم کے طور پر شامل کرنے اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے اس کی مالی امداد کی منظوری دی۔کابینہ نے ضلع سوات میں ورلڈ بنک کی مالی معاونت سے 88 میگاواٹ کے گبرال کالام ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 327 کنال اراضی کے حصول کی بھی منظوری دی۔ یہ فیصلہ پراجیکٹ کے پی سی ون کے مطابق کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے شروع ہونے پر صوبے کے لیے سالانہ 7.4 بلین روپے سے زیادہ کی آمدن متوقع ہے۔صوبائی کابینہ نے دریائے کنہار مانسہرہ پر 300 میگاواٹ کے بالاکوٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر عمل درآمد کے لیے ویلیوایشن اسٹڈی کی بنیاد پر اراضی اور تعمیر شدہ جائیداد کے حوالے سے اضافی معاوضے کی منظوری بھی دی۔ اس معاوضے میں اضافہ (286.362 ملین روپے) کنسلٹنٹ کی سفارشات، علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور پروجیکٹ سائٹ پر انجینئرز اور ورکرز کے لیے بہتر ماحول کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ شروع ہونے کے بعد یہ رقم اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے چار دنوں کے اندر وصول کر لی جائے گی۔کابینہ نے گاڑیوں کی مینوئل رجسٹریشن بکس کو خودکار موٹر وہیکل رجسٹریشن سمارٹ کارڈز میں منتقل کرنے کی منظوری دی۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے 2022 میں رجسٹریشن سرٹیفکیٹس کی فراہمی اور سمارٹ کارڈز کی فراہمی کے لیے وفاقی حکومت کی نیشنل سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی کے ساتھ پہلے ہی مفاہمت پر دستخط کیے تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد کے مقابلے خیبرپختونخوا میں سمارٹ کارڈ رجسٹریشن کے ریٹ 574 روپے ہوں گے۔ یہ رجسٹریشن فیس اسلام آباد میں 1475، پنجاب میں 530 اور صوبہ سندھ میں 1600 روپے ہے۔ کابینہ نے ضم شدہ اضلاع میں اے آئی پی کے تحت سابقہ فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فنڈز کے استعمال کی بھی منظوری دی۔ یہ فنڈ 500 ملین پرنسپل اماونٹ اور 43 ملین جمع شدہ مارک اپ پر مشتمل ہے۔ فنڈ کے زریعے ضم اضلاع میں چھوٹے کاروباروں کو مائیکرو فنانس (اخوت اسلامی مائیکرو فنانس) کیا جائے گا۔کابینہ نے پناہ کوٹ اپر دیر میں جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے 34 کنال سے زائد اراضی کے حصول کی بھی منظوری دی۔کابینہ نے خیبرپختونخوا گوڈاؤن رجسٹریشن ایکٹ 2021 کے مطابق خیبر پختونخوا رجسٹریشن رولز 2022 کے نفاذ کی منظوری دی۔ اس ایکٹ کے ذریعے گوداموں کو رجسٹرڈ اور ریگولیٹ کیا جاتا ہے تاکہ صوبے میں سامان کی مستحکم فراہمی اور دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے جامع نظام کو یقینی بنایا جا سکے۔کابینہ نے صوبے کے سرکاری سکولوں کے ہونہار طلباء کو صوبے کے معیاری تعلیمی اداروں میں ساتویں سے بارہویں جماعت تک مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی کی منظوری دی۔ وزیر اعلیٰ کی تجویز پر کابینہ نے ماہانہ وظیفہ کی رقم اور طلباء کی تعداد کو اگلے تعلیمی سال سے دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ کابینہ نے یہ بھی ہدایت کی کہ نصابی کتب اور متعلقہ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی بھی طالب علم تعلیم سے محروم نہ رہے۔ کابینہ نے یہ بھی ہدایت کی کہ سرکاری اور نجی شعبے کی طرف سے شائع کردہ نصابی کتب کے معیار اور قیمت کا موازنہ کرنے کے لیے ایک مطالعہ کیا جائے۔ صوبے کے عوام کے وسیع تر مفاد میں استعمال شدہ نصابی کتب کے دوبارہ استعمال کی بھی منظوری دی گئی۔کابینہ نے آئین کے تحت ضرورت کے مطابق نیشنل انڈسٹریل ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویز کی مشروط طور پر منظوری دی تاکہ وفاقی حکومت تمام اکنامک زونز، اسپیشل اکنامک زونز، ٹیکس فری زونز، انٹیگریٹڈ ٹورازم زونز، اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اور ایکسپرٹ پروسیسنگ زونز کو اس کے تحت یکجا کرسکے۔.یہ بات قابل ذکر ہے کہ چیئرمین نجکاری کمیشن کی سربراہی میں خصوصی اقتصادی زونز کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قائم کردہ ورکنگ گروپ نے مذکورہ بالا تمام اداروں کو یکجا کرنے کی تجویز دی تھی۔ تاہم، اس طرح کے اتحاد کے لیے آئین کے مطابق صوبائی حکومت کی منظوری اور اس کا اختیار غیر مشروط طور پر وفاقی حکومت کو سونپنا ضروری ہوگا۔ اس منظوری کے بعد نیشنل انڈسٹریل ڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی زونز کی حد تک ایگزیکٹو اور قانون ساز اتھارٹی کے تحت تمام کردار ادا کرے گی۔ جس میں اس قانون کے تحت زون قائم کرنا، ریگولیٹ کرنا، تیار کرنا اور ان کا انتظام کرنا شامل ہے۔ وفاقی اداروں کے تمام کردار اس قانون کی دفعات کے مطابق اتھارٹی میں منتقل کیے جائیں گے۔ اگرچہ مذکورہ بالا تقریباً تمام ادارے اصل میں وفاقی قانون سازی کے تحت قائم کیے گئے ہیں لیکن موجودہ منظوری اس واضح شرط کے ساتھ دی گئی ہے کہ ”سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے زونز کے تحت دی جانے والی مراعات کو ایک ہی تنظیم کے نظام کے تحت لایا جائے گا اور یہ کہ زونز اور انڈسٹریل اسٹیٹ کے آپریشنزاور انتظامی کنٹرول سرمایہ کاروں کی بہتر سہولت کے لیے صوبوں کے پاس رہنا چاہیے۔تفصیلی بحث کے بعد کابینہ نے سال کے لیے 600,000 میٹرک ٹن گندم کی خریداری کی منظوری دی۔ 40 کلو گندم کا ریٹ وفاقی، پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کے ریٹ کی طرح 3900 روپے مقرر کیا گیا۔ کابینہ نے متعلقہ حکام کو سختی سے ہدایت کی کہ گندم کے بہتر معیار اور مقدار دونوں کو یقینی بنا کر اس عمل میں ہر قدم پر شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مقامی کاشتکاروں کے مفادات کا ہر صورت تحفظ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضلعی سطح سے لے کر ڈویژنل اور صوبائی سطح تک ایک جامع ورک پلان اور ایس او پیز کی منظوری دی گئی۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments