سکے کے دو رخ: مائنز اینڈ منرل بل اور سیاسی منافقت کا گندہ چہرہ
دی خیبر ٹائمز خصوصی رپورٹ
پاکستان میں علاقائی سیاست ہمیشہ سے مفادات، دباؤ، اور دوہری پالیسیوں کا شکار رہی ہے، اور حالیہ “مائنز اینڈ منرل بل” اس کی ایک اور مثال بن کر سامنے آیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے رکن زاھد ریکی نے جب یہ بل پیش کیا تو حیرت انگیز طور پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے کوئی سوال اٹھائے بغیر بل کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں یہ بل باآسانی پاس ہو گیا۔ لیکن دوسری طرف، جب یہی نوعیت کا بل خیبرپختونخوا اسمبلی میں زیر غور آیا، تو یہی دونوں جماعتیں یعنی جمعیت علماء اسلام اور اے این پی، شدید مخالفت پر اتر آئیں۔
اس دوغلی پالیسی کو مزید عجیب اس وقت بنایا گیا جب جمعیت علماء اسلام کے ہی سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سینیٹ میں اسی بل کے خلاف تحریک لا کر ایک تضاد کو بے نقاب کر دیا۔ گویا ایک ہی جماعت ایک صوبے میں بل پیش کرتی ہے، دوسرے میں مخالفت کرتی ہے، اور وفاق میں اس کے خلاف موشن لاتی ہے۔
یہ صرف منافقت نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔
پختونخوا میپ کی خاموشی
ایک اور قابلِ ذکر پہلو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پختونخوا میپ) کی خاموشی ہے۔ یہ جماعت جو عمومی طور پر قومی وسائل پر پختون قوم کے حق کی بات کرتی ہے، اس معاملے پر ایک مہینے سے خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس خاموشی کو سیاسی چالاکی سمجھا جائے یا پسِ پردہ مفادات کا حصہ—یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اس نے ان کی خود مختاری کے دعوے پر سوال ضرور کھڑے کر دیے ہیں۔
سکے کے دو رخ:
1. بلوچستان میں مفادات کا تحفظ؟
بل کی منظوری شاید کچھ بااثر طبقات یا بین الاقوامی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہو، جس پر جماعتوں نے نظریاتی اختلافات کو وقتی طور پر دبا دیا۔
2. خیبرپختونخوا میں عوامی جذبات کا استحصال؟
یہاں بل کی مخالفت شاید عوامی حمایت حاصل کرنے، یا سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے کی جا رہی ہے، نہ کہ کسی اصولی موقف کی بنیاد پر۔
یہ صورتحال ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اصولوں یا نظریات سے زیادہ، مواقع اور مفادات کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی جماعت مختلف صوبوں میں مختلف بیانیے اپناتی ہے، اور عوام ہر بار صرف وعدوں کے سہارے رہ جاتے ہیں۔
سیاست میں “سکہ” ہمیشہ دو رخ رکھتا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ دونوں رخ صرف طاقتوروں کے لیے فائدہ مند اور عوام کے لیے مایوس کن ثابت ہوتے ہیں۔