پشاور ( دی خیبرٹائمز رپورٹ )
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسدادِ بدعنوانی سرکل پشاور نے سرکاری قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی، مالی دھوکہ دہی اور اعتماد شکنی کے الزامات کے تحت ایک سینئر خاتون افسر کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ ایف آئی آر نمبر 22/2025 کے تحت 3 جون 2025 کو درج کیا گیا، جس میں ملزمہ مسماۃ حاجرا سرور دختر غلام سرور خان، ڈپٹی ڈائریکٹر کمشنریٹ برائے افغان مہاجرین (CAR) خیبر پختونخواہ کو نامزد کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حاجرا سرور نے نہ صرف ایک ہی وقت میں دو سرکاری اداروں — CAR اور پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) — میں ملازمت کی، بلکہ دونوں اداروں سے تنخواہیں اور دیگر مالی فوائد بھی حاصل کیے۔ ان ادوار میں 2001ء تا 2008ء اور دوبارہ 2017ء سے تاحال دونوں ملازمتوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
ایف آئی اے کو CAR سے موصولہ سرکاری دستاویزات اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود شواہد سے اس دوہری ملازمت کی تصدیق ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حاجرا سرور نہ صرف PCB میں خدمات انجام دیتی رہیں بلکہ ایران کی ویمن کرکٹ ٹیم کی کوچ کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتی رہی ہیں، جو کہ سول سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964ء اور دیگر متعلقہ قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرنے کے بعد قانونی کارروائی کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ملزمہ حاجرا سرور مقدمہ درج ہونے سے قبل ملک سے فرار ہو کر برطانیہ چلی گئی ہیں۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر ان کا نام IBMS (Integrated Border Management System) کی اسٹاپ لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے تاکہ پاکستان واپسی کی صورت میں فوری طور پر گرفتار کیا جا سکے۔
ادارے نے اس کیس میں ملزمہ کی جائیداد اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے لیے قانونی اقدامات کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے پر اس مقدمے کو دبا دینے کے لیے افغان کمشنریٹ کے ایک اعلیٰ افسر سمیت بعض بااثر حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ ڈالا گیا، تاہم ایف آئی اے پشاور زون کے ڈائریکٹر انعام اللہ گنڈاپور نے ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے میرٹ پر کارروائی کا فیصلہ کیا۔
انعام اللہ گنڈاپور کے اس جرات مندانہ اقدام کو عوامی اور سماجی حلقوں نے سراہا ہے اور بدعنوانی کے خلاف ان کے غیر متزلزل مؤقف کو قابلِ تحسین قرار دیا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کیا جا رہا ہے تاکہ اس کیس میں ملوث دیگر افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
