کرونا وائرس: سائنس اور اسلام کا توکل

تحریر: اعجاز مقبول
کرونا وائرس کے خوفناک رفتار سے سے پھیلاﺅ نے دنیا بھر کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹروں کی سر توڑ کوششیں بھی اس مرض کوروکنے میں ناکام ہوگئی ہیں ، ہر نیا دن کرونا جیسی بیماری میں مبتلا ہونےوالے افراد کی تعداد میں اضافے کی ب±ری خبر لے کرآتا ہے، مریضوں کاعلاج کرنےوالے خود مریض بن گئے اور پھر لقمہ اجل بن کر رہ گئے، امریکہ ، یورپ، چین اور دیگر ممالک کےساتھ ساتھ عالم اسلام کے ممالک بھی اس موذی وبا کا شکار ہو رہے ہیں، جن میں ایران، سعودی عرب، افغانستان، ترکی اور خود پاکستان بھی شامل ہے، اس عالمی وبا کے بعد دنیا بھر میں قرنطینہ کی اہمیت اور سماجی رابطوں کو کم کرنے اور فاصلے بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی گئی، لیکن سماجی فاصلوں کو کم کرنے کے معاملات پر بہت سارے سوالات نے جنم لیا، بعض حلقوں اورعلما اکرام کی طرف سے اس پر اعتراضات پر بھی کئے گئے کہ یہ تقوی اورتوکل کی تعریف کے خلاف ہیں ، کیا واقعی ایسا ہی ہے، کہ ہمار ا ایمان مضبوط ہو تو ہمیں ہاتھ ملانے کی سنت ترک نہیں کرنی چاہئے، نماز باجماعت ادا کرنا وبا کے دنوں میں بھی ضروری ہے، انہی سوالات کولے کر ہم نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ سینیٹر اور عالم دین ساجد میر صاحب سے خصوصی گفتگو میں
ان کاکہنا تھا کہ اس وقت پوری دنیا کو جس میں ظاہر ہے پاکستان بھی شامل ہے ایک چیلنج ایک آفت کا ایک وباءکا اور ایک آزمائش کا سامنا ہے جو کرونا وائرس کی شکل میں دنیا پر آئی ہے۔ ان آفتوں وباو¿ں یا آزمائشوں کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ پوری زندگی جو انسان کو ملی ہے وہ آزمائش کے لئے ہی ہے. اور آزمائش کی چھوٹی یا بڑی شکلیں ان کی زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے اور ایک حد تک وہ بھی درست ہے کہ تکلیفیں جو زندگی میں آتی ہیں وہ کسی خطا یا گناہ یا کسی کوتاہی کی وجہ سے آتی ہیں۔ یہ بھی درست ہے لیکن اصل مسئلہ جو ہے وہ آزمائش کا ہے اور آزمائش کے حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ اللہ کی طرف پہلے سے بھی زیادہ رجوع کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور اللہ کی نا فرمانیوں سے بچا جائے جو نافرمانیاں ہو چکی ہیں ان پر استغفار کیا جائے اور اللہ کا ذکر کیا جائے اللہ سے دعائیں کی جائیں۔ یعنی اللہ کے پاک اور بابرکت نام کی بدولت یا اس کی برکت سے تمام ضرر رساں اور نقصان دہ چیز وں سے بچا جا سکتا ہے وہ دعائیں ضرور پڑھی جائیں۔ عربی دعائیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں وہ پڑھی جائیں، لیکن اگر نہیں آتیں تو اپنی زبان میں بھی رب رحیم سے دعا ئیں مانگی جاسکتی ہیں ، وہ ہمیں اس قسم کی تکلیفوں اور وباﺅں سے بچائے۔ اور اللہ کے نام کی برکت پہ یقین رکھا جائے کہ ان تکلیفوں سے بچا جا سکتا ہے۔

ایسے میں وہ عمل جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے وہ اختیار کئیے جائیں باقی رہی بات کہ اب یہ تکلیف آئی ہے اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ، اس کےلئے ضروری ہے کہ حکومت اور عوام کو مل کر مشکلات اور وباﺅں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اس کے لئیے احتیاطی تدابیر بھی اختیار بھی کرنی چاہیے۔ شریعت جہاں یہ تعلیم دیتی ہے کہ سب کچھ نفع نقصان اچھی چیزیں اور بری چیزیں جو بھی زندگی میں آتی ہیں یا آزمائشیں آتی ہیں یا تکلیفیں آتی ہیں تو سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ شریعت وہاں ہمیں یہ بھی سکھا تی ہے کہ اس کے لئیے احتیاطی تدابیر اور ان سے بچنے کی کوشش حتی الا مکان کرنی چاہیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کے بارے میں یہ تعلیم دی کہ جس علاقے میں یہ وبا آئے اس علاقے کے لوگ اس سے باہر نا جائیں اور نا کوئی متاثرہ علاقے میں آنے کی کوشش کرے. یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے اسی طرح دوسری احتیاطی تدابیر بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے خاص طور پہ ان حالات میں جبکہ اجتماعات کو محدود کیا جا رہا ہے اور لوگوں کے ایک جگہ اکٹھے ہونے کو بھی محدود کیا جا رہا ہے جو کہ اچھی بات ہے۔ اسی حوالے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ مساجد میں نمازوں کے اوقات اور دورانیے اور اسی طرح خطبات کے دورانیے کو بھی مختصر کیا جائے جبکہ بڑے جلسے اور محافل جو ہیں دینی یا دوسری ان پر بھی پابندی لگی ہے تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ شریعت میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ ان معاملات میں لاپرواہی کی وجہ سے ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں کہ مسجد بالکل بند ہو جائے۔

سینیٹر پروفیسر ڈاکٹرساجد میر کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب مشکلات ، مصیبت ، آزمائش یا وبا آتی ہے تو ان دنوں نماز جمعہ کاخطبہ ، تقریر ، یا درس کا دورانیہ کم کر دیا جائے، جیسے جنگ کے دنوں میں نماز مختصر کر دی جاتی تھی، اسی طرح چلتے پھرتے بھی ادا کی جا سکتی تھی، اس طرح یہ دلیل پکڑ کر اس کی بنیاد پہ یہ بھی کہاجا سکتا ہے کہ خطبے کا دورانیہ اور دینی پروگرام کا دورانیہ جتنا بھی ممکن ہوکم یا مختصر کر دیا جائے، تاکہ مسجدیں آباد ہوتی رہیں، استغفار اورتوبہ کاسلسلہ اور اللہ کی تعلیمات اور احکامات پر عمل درآمد کا اختصار کےساتھ بھی جاری رہے۔۔۔ شریعت نے ا حتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ان احتیاطی تدابیر پر جس حد تک عمل ممکن ہو کرنا چاہیے، ان کا کہنا تھا حرمین شریفین انتظامیہ سمیت دنیا پھر کی اسلامی حکومتوں نے کرونا وائرس کے ممکنہ پھیلاوکی روک تھام کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے ہیں وہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ہیں۔ یہ اقدامات اسلام کے شرعی اصولوں کے عین مطابق ہیں۔گھروں میں رہنا کورونا وائرس کے خلاف مضبوط ہتھیار ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایمان کے ساتھ توکل علی اللہ پرقائم رہیں۔ اسلام انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی تاکید کرتا ہے اور اس کے حوالے سے حکومتوں نے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے پیش نظر کئی ہنگامی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ کرونا کی روک تھام کے لیے ہمارے پاس اللہ کے رسول کا وہی حکم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کی روک تھام کے حوالے سے بیان فرمایا تھا۔ مقاصد شریعت کی روشنی میں انسانی جان اور صحت کے تحفظ کے لیے خطبہ جمعہ اور نمازباجماعت کو موقوف کیا جا سکتا ہے۔ شریعت کا ایک مقصد حفظِ جان بھی ہے۔ حفظِ جان کے ضمن میں انسان کی زندگی اور صحت دونوں کا تحفظ شامل ہے۔ یعنی شرعی احکام کا مقصد انسان کی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی صحت کی حفاظت بھی ہے۔ بیماری کے علاج سے احتیاط بہتر ہے۔ شرعی تعلیمات اور انسانی عقل علاج سے پہلے حفظان صحت کی تلقین کرتے ہیں۔ ان تمام عوامل کے سدِباب کا سبق اور درس ملتا ہے جن کے پھیلاو¿ سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور پھیلتی ہیں، جمعہ کے خطبہ کو مختصر کرنے۔ ایک صف سے دوسری صف کا فاصلہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے مریض سے دور رہنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس سے بیماری کے جراثیم دوسرے کو منتقل ہونے کا خدشہ ہو۔۔ اس صورتحال پر انہوں نے مختلف احادیث مبارکہ اور اسلامی تاریخ کے واقعات کا بھی حوالہ دیا۔۔صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ : عمرو بن شرید نے اپنے والد سے روایت کی، کہا : ثقیف کے وفد میں کوڑھ کا ایک مریض بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیغام بھیجا : ہم نے (بالواسطہ) تمھاری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر) لوٹ جاو.
مزکورہ حدیث شریف کی روشنی میں وباءسے بچاو¿، اور احتیاطی تدابیرکے طور پر مصافحہ نہ کرنا سنت ہے، کیونکہ ثقیف کے وفد میں موجود ایک کوڑھی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملا” بیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ سامنا ہی کیا۔بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو، جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کے بھاگتے ہو، گویا ایسے موقعے پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ، وہ غلط کہتے ہیں، ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں، کچھ ہو گیا تو ہمیں پھانسی دے دیں، ہمارا ایمان قوی ہے، وہ غلط کہتے ہیں، صحیح مسلم کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی۔ چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ لہذا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا دین اسلام کے عین مطابق ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اسلامی تعلیمات سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

پروفیسر ڈاکٹر زرفشاں طاہر ماہر امراض متعدی ڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ پنجاب

پروفیسر ڈاکٹر زرفشاں طاہر انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ پنجاب میں ڈین کے عہدے پر فا ئز ہیں۔ وہ متعدی امراض کی شعبہ میں ماہر ہیں ، دنیا بھر میں خوفناک وبا کی شکل اختیار کرجانےوالی وبا پاکستان میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جان لیو وائرس کرونا کیا ہے ، اس کی علامات کیا ہیں ، اس سے بچاﺅ اورعلاج کے حوالے سے ڈاکٹر ذرفشاں کا خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیاگیا جس کامقصد قارئین کو اس موذی وبا کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات پہنچا نا اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے جانکاری تھا۔

پروفیسر ڈاکٹر زرفشان نے خصوصی گفتگو میں کہا یہ ایک ایسی بین الاقوامی وبا ہے جس نے امریکہ ، یورپ، چین ، ایران ، مشرق وسطی، جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے 192 سے زائد ممالک کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں یہ وائرس تیزی سے پھیلا ہے۔ جہان ہزاروں افراد اس کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے اور ہزاروں افراد استپالوں ، قرنطینہ اورگھروں میں قید ہوکر رہ گئے ہیں ، پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہے جن میں اس عالمی وبا نے حملہ کیا ہے لیکن ارض پاک میں صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں ہے۔ تیزی سے پھیلنے کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈاکٹر زرفشاں کاکہنا تھاکہ اس خطرناک بیماری کے وائرس بڑی تیزی سے پھیلتے ہیں، اگر یہ وائرس کسی ایک انسان میں داخل ہو جاتے ہیں تو پھر متاثرہ شخص تین سے چار لوگوں میں یہ جان لیوا بیماری پھیلانے کاباعث بن جاتاہے۔ چونکہ جس سرعت سے یہ پھیلتی ہے اس کا مقابلہ کرنے کےلئے حکومتوں کے پاس وسا ئل دستیاب نہیں ہوتے، جس کے باعث اس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہوجاتاہے ،

سوال! ڈاکٹر صاحبہ اس کی علامات کیا ہیں؟

ڈاکٹر زرفشاں: یہ فلوکی طرح کی علامات رکھتی ہے لیکن اس میں فلو اور نزلہ کم ہوتاہے ،جبکہ گلے کی تکلیف اور بخار ہوتا ہے ، جیسے جیسے کرونا کی بیماری بڑھتی ہے تو مریض کی حالت خراب ہونے لگتی ہے اس کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے یا سانس اکھڑنے لگتا ہے

سوال! اس کےلئے احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟

ڈاکٹر زرفشاں؛اس بیماری کا فی الحال کوئی مصدقہ علاج سامنے نہیں آیا ، ان حالات میں بہتر ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ،بار بار ہاتھ دھوئے جائیں ، پہلے تو دن میں پانچ چھ مرتبہ ہاتھ دھونے کاکہاگیا تھا ، لیکن موجودہ صورتحال میں ضروری ہے کہ ہر گھنٹے بعد ہاتھ اچھی طرح صابن سے دھوئے جائیں ،کاربالک صابن سے ہاتھ دھوتے ہوئے جھاگ بنائی جائے کیونکہ جھاگ میں کرونا کے وائرس مر جاتے ہیں، ہاتھوں سے چہر ے کو چھونے سے گریز کیا جائے،کیونکہ اس کے جراثیم منہ اورآنکھوں کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اور پھر سانس کی نالی میں داخل ہوکر پھیلاﺅ کا باعث بنتے ہیں، اس کا مریض جب سانس لیتا ہے تو اس کے منہ سے نکلنے والے جراثیم سامنے والے کو متاثرکرتے ہیں، اور یوں قریب بیٹھا شخص بھی اس بیماری کا شکار ہوجاتاہے، قریب قریب بیٹھنے کی بجائے کم از کم ایک سے ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھ کربیٹھا جائے کیونکہ اس بیماری کاکیرئیر ایک میٹر تک کا سفر طے نہیں کر پاتا، لہذا آپس میں فیصلہ رکھ کر بھی اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے،

سوال : ڈاکٹر صاحبہ قرنطینہ ہی اس کا علاج کیوں ہے؟

ڈاکٹر زرفشاں: کرونا ایک نئی قسم کا وائرس ہے اگرچہ یہ فلو فیملی سے ہی ہے لیکن اس کےلئے کوئی طے شدہ میڈیسن نہیں ہے، یہ اگرچہ سانس کی نالی سے خارج ہو کرصحت مند لوگوں میں داخل ہوتا ہے ، توا س کےلئے بہتریہی ہے کہ متاثرہ شخص یا مریض کو اس کی فیملی سے الگ کر دیا جائے اور اسے کم از کم قرنطینہ میں رکھا جائے، تاکہ اس بیماری کوپھیلنے سے روکا جا سکے،،

ڈاکٹر ذرفشاں!یہ بتائیے گا کہ یہ وبا کون سی عمرکے لوگوں کے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

جواب: اب تک کی صورتحال اور اعداد و شمار میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ستر سال کی عمر کے لوگوں کی شرح اموات دس فیصد تک ہے، جبکہ پچاس سے ساٹھ سال تک یہ شرح تین فیصد ہے جبکہ بچوں اورخواتین میں ایک فیصد ہے،

سوال : وینٹی لیٹر مریض کےلئے اہم قرار دیا جاتا ہے کیوں ؟

ڈاکٹر زرفشاں: اس بیماری کی شدت میں مریض کا سانس اکھڑنے لگتا ہے یا سانس لینا محال ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وینٹی لیٹراس صورتحال میں بنیادی اہمیت اختیار کرجاتا ہے ، وینٹی لیٹر کی کمی کا سامنا ترقیا فتہ ممالک کو بھی درپیش ہے، ان ممالک کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہر مریض کو وینٹی لیٹر فراہم کیا جا سکے، یہی وجہ ہے کہ لند ن میں عمر رسیدہ یا زائد العمر لوگوں کی بجائے نوجوان متاثرہ افراد کو وینٹی لیٹر کی فراہمی ترجیحات میں شامل کی گئی۔
سوال ، ڈاکٹر صاحبہ نئی بات کے ذریعے پاکستانیوں کوکوئی پیغام دیناچاہیں گی؟

ڈاکٹر زرفشاں! کرونا کے باعث اگرچہ دنیا بھر میں ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں لیکن ہمیں اس سے گھبرانا نہیں بلکہ متحد ہوکراس کا مقابلہ کرناہے۔ اس موذی وبا میں ہمیں احتیاطی تدابیر خود پر لاگو کرنی ہے تاکہ ہم خود کواور اپنے خاندان کو اس سے محفوظ رکھ سکیں۔ میری عوام سے اپیل ہے کہ وباکے ان مشکل دنوں میں حکومت کےساتھ تعاون کریں ،سب سے بہتر یہ ہے کہ باہر نکلنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ گھر میں رہیں ، بچوں کو باہر جانے سے روکا جائے ، کیونکہ سکولوں اور تعلیمی اداروں میں چھٹیاں دینے کا مقصد لوگوں کو گھروں میں رکھنا تھا کہ وہ سماجی فاصلے پیدا کر کے اس بیماری کا شکار ہونے سے بچ جائیں نہ کہ ان چھٹیوں کو تفریح کا ذریعہ بنا لیا جائے ، میں یہ واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ کرونا گھروں میں نہیں آتا ہم جب گھروں سے باہرنکلتے ہیں تو اسے ساتھ لے کرگھروں میں جاتے ہیں ،،لہذا خود بھی گھر میں رہئیے اوربچوں کو بھی گھروں میں رکھیں ، کھانے میں صحت مند خوراک شامل کریں تا کہ قوت مزاحمت بہتر سے بہترین ہو سکے ۔

توکل کی اہمیت موجودہ حالات میں مفتی محمود صاحب

توکل قرآن پاک کی ایک نہایت اہم اصطلاح ہے جو باب تفعل کا مصدر ہے ، جس کے لغوی معنی بھروسہ کرنے کے ہیں۔ توکل : وکیل بننا اور وکل کا لفظی معنی ”کسی معاملہ میں کسی ذات پر اعتماد کرنا“ ہے،

خبر پڑھیں:نازیہ حسن کی 55 ویں سالگرہ
توکل کی شرعی تعریف:

اصطلاح میں اللہ پر پورا بھروسہ اور اعتماد کرنے کا نام توکل ہے۔

امام جرجانی رحمہ اللہ تعالیٰ التعریفات میں فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ کے پاس موجود اشیاء پر کامل بھروسہ کرنے اور لوگوں کی اشیاءسے بے نیازی اختیار کرنے کا نام “توکل “ہے یعنی اپنی عاجزی کا اظہار اور دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توکل کہلاتا ہے۔ ابن رجب نے العلوم والحکم میں اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہِ”دنیوی اور اخروی امور کے فوائد کو حاصل کرنے اور ضرر رساں اشیاءکو دور کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر صدق دل سے بھروسہ کرنے کو توکل کہتے ہیں۔”

یعنی اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ دنیوی واخروی تمام معاملات میں نفع ونقصان کی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے حکم کے بغیر کوئی پتا درخت سے نہیں گر سکتا، ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اللہ کی محتاج ہے، غرض یہ کہ خالقِ کائنات کی ذاتِ باری پر مکمل اعتماد کرکے دنیاوی اسباب اختیار کرنا توکل علیٰ اللہ ہے۔ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو ا±سے مرض سے شفایابی کے لیے دوا کا استعمال تو کرنا ہے، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جب تک اللہ تعالیٰ شفا نہیں دے گا، دَوا اَثر نہیں کرسکتی۔ یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا نظام یہی ہے کہ بندہ دنیاوی اسباب اختیار کرکے کام کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسا کرے، یہ یقین رکھے کہ جب تک حکم خداوندی نہیں ہوگا، اسباب اختیار کرنے کے باوجود شفا نہیں مل سکتی
اوردراصل توکل کا حقیقی معنی و مفہوم ، لازمی توحید ، عقل اور شریعت سے مرکب ہے۔ عام لوگ اس کے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ کسی کام کے لیے جدو جہد اور کوشش نہ کی جائے بلکہ چپ چاپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہا جائے۔ اور یہ خوش گمانی پال لی جائے کہ اللہ کو جو کچھ کرنا ہے وہ خود کردےگا۔ بہ الفاظ دیگر مقدر میں جو کچھ ہے وہ ہو کر رہےگا۔ قسمت کی اسکرین پر پردہ غیب میں جو کچھ لکھا ہے اپنے آپ ظاہر ہو ہی جائےگا۔ اسباب و تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ ایسا کرنا قرآنی اصطلاح یعنی توکل کے سراسر منافی ہے۔ لیکن یہ سراسر وہم ہے، ہم پہلے قرآن کریم سے توکل کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہیں، اللہ ذوالجلال کا فرمان ہے:۔ “تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔”(سورالمائدة:23)

ارشاد الہی ہے کہ”صحیح معنوں میں اہل ایمان وہ ہیں جن کے دل ، اللہ کے ذکر سے لرز جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں۔”( سورة النفال)اللہ رب العزت نے فرمایا “اے نبی! آپ کو اور آپ کے پیروکار اہل ایمان کو بس اللہ تعالی ہی کافی ہے۔”( سورة النفال)اللہ تعالی کا فرمان ہے جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔”( سورة الطلاق)”

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کہا” ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے۔”( سورة آل عمران)ارشاد باری تعالی ہے “اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو”(یونس: 84)۔ ارشاد باری تعالی ہے “مومنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ “(التوبہ: 51) ارشاد ہوتا ہے ” اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بےشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔”

(آل عمران: 159)

مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالی نے مومنوں کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا حکم اور اس کی انتہائی ترغیب دی ہے۔ جس سے یہ بات عیاں ہوتی کہ توکل کے حکم کا مقصد یہ ہے کہ دلوں میں ثابت قدمی کو جما دیا جائے اور خوف و ہراس کے احساسات کا خاتمہ کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی پر توکل کرتے ہوئے اپنے ارادوں کو پائے تکمیل تک پہنچا دیا جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں اور مختلف ڈھنگ سے اللہ تعالی پر توکل وبھروسہ کی ترغیب دی ہے، چند احادیث پاک ذیل میں درج کئے جاتے ہیں: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: باندھو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔(سنن ترمذی،)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: اہلِ یمن بغیر ساز و سامان کے حج کرنے کے لیے آتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں، لیکن جب مکہ مکرمہ پہنچتے تو لوگوں سے سوال کرنا شروع کر دیتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی سورہ البقرہ میں آیت: ۱۹۷ نازل فرمائی کہ:” حج کے سفر میں زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو۔“ (صحیح بخاری)عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “میری امت کے ستر ہزار آدمی بلا حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: “یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدفالی نہیں لیتے، آگ سے نہیں دغواتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (مسلم: 321)

امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: “اگر تم لوگ اللہ تعالی پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے، جیسے ایک پرندہ کو رزق ملتا ہے، صبح خالی پیٹ نکلتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتا ہے”۔(ترمذی: 2266)

توکل اور اسباب

توکل ترک عمل اور ترک تدابیر کا نام نہیں، بلکہ عمل وتدابیر کے ساتھ توکل کرنا مسلمانوں کی کامیابی کا اہم راز ہے۔

دیکھو، ان آیات کو اور سوچو، کتنے نرالے اور خوبصورت انداز میں اللہ نے توکل کی پوری اہمیت اور حقیقت واضح کردی؟ کیا ان آیات سے لگتا ہے کہ توکل پسپائی اور ترک عمل و ترک تدابیر کا نام ہے؟ نہیں، کبھی نہیں! ان سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پورے عزم و ارادہ اور مستعدی کے ساتھ کام کو انجام دیتے ہوئے انجام یا نتائج کو اللہ کے حوالے کردینے کا نام توکل ہے؟ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اگر اللہ ہمارا مددگار ہے تو ہمیں کوئی ناکام کر ہی نہیں سکتا اور اگر وہی نہ چاہے تو کسی کی کوشش اور تدبیر کام نہیں آسکتی۔ لہذا ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے کام میں اللہ پر بھروسہ اور اعتماد کامل رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں